انٹرنیٹ یا دوسرے ذریعے سے فحش مواد فراہم کیے جانے کے خلاف آواز اٹھتی رہتی ہے لیکن کیا واقعی اس کے شواہد ہیں کہ ان سے لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے
ماہر نفسیات البرٹ بینڈورا نے سنہ 1961 میں اس ضمن میں ایک اہم تجربہ کیا تھا۔ انھوں نے کچھ بچوں کو ایک شخص کو ہوا بھری گڑیا کو پیٹتے ہوئے دکھایا تھا۔ پھر ان بچوں کو اسی طرح کی گڑیا کے ساتھ چھوڑ دیا گیا اور یہ دیکھا گیا کہ ان بچوں نے بھی اپنی اپنی گڑیا کو پیٹا۔
س سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہم اس سے سبق لینے کے بجائے پرتشدد حرکات کی نقل کرنے کی جانب مائل ہوتے ہیں۔
اس کے برسوں بعد لاس اینجلس کی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں نفسیات کے ایک طالب علم نیل مالامتھ نے فحش مواد کے تئیں ردعمل پر ایک تجربہ کیا اور اپنی پوری زندگی اسی تحقیق میں لگا دی۔
سنہ 1986 میں کیے گئے ایک تجربے میں انھوں نے ’ریپ کے محرک‘ کے طور پر فحش مواد کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ جاننے کے لیے 42 مردوں کی تقرری کی اور انہیں تین گروپ میں تقسیم کردیا۔ پہلے گروپ کو انھوں نے جنسیت سے لبریز مواد فراہم کیے جس میں ریپ اور جنسی عمل کے دوران جسمانی طور پر تکلیف پہنچا کر لطف اندوز ہونے والے مواد شامل تھے۔
دوسرے گروپ کو تشدد سے پاک فحش مواد دکھائے گئے جبکہ تیسرے گروپ کو ان میں سے کسی قسم کا مواد نہیں دکھایا گیا۔
ایک ہفتے بعد انہیں بظاہر ایک غیر متعلق تجربے میں شامل کیا گیا جس میں ان سب کے ساتھ ایک ایک خاتون کا جوڑا بنایا گیا اور ان سے یہ کہا گیا کہ یہ خواتین ان میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ پھر ان سے ایک بوجھو تو جانیں قسم کا ایک کھیل کھیلنے کو کہا گیا جس میں ہر غلط جواب پر عورت کو سزا دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔
اس تجربے اور اسی قسم کے بہت سے دوسرے تجربوں سے مالامتھ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی شخص جنسی طور پر تشدد پسند ہو اور اگر اسے اس
قسم کے فحش مواد فراہم کیا جائے تو غالب امکان یہ ہے کہ وہ جنسی تشدد کے فعل کا مرتکب ہوگا۔
جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ فحش مواد کی فراہمی سے ریپ جیسے واقعات ہوتے ہیں وہ اس مالامتھ کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں۔
مالامتھ کا کہنا ہے کہ ایسا کہنا ذرا زیادہ سرسری ہے اور وہ اپنی اس دلیل کے لیے شراب نوشی کو پیش کرتے ہیں کہ شراب سے مختلف لوگوں پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
فحش مواد کے خلاف مہم چلانے والوں کی تشویش یہ ہے کہ شدید پورنوگرافی سماج کا اہم حصہ بنتی جا رہی ہے۔
بوسٹن کی وھیلوک کالج میں سماجیات اور خواتین سٹڈیز کی گیل ڈائنز کہتی ہیں کہ آن لائن پر کی تشدد سے پاک پورنوگرافی کی تلاش کی جدوجہد ہے۔
’ایک معروف فحش فلم بنانے والے ہدایت کار جولس جورڈن کا بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے مداحوں کی پرتشدد جنسی مناظر کی خواہشات کا احترام نہیں کرسکتے۔‘
اس کے برعکس ماہر علم العصاب اوگی اوگاس کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے اپنے ساتھی سائی گیڈام کے ساتھ کروڑوں ویب سائٹس سے فحش سائٹیں تلاش کی تو انہیں پرتشدد سائٹ بہت کی کم ملیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جنسی دلچسپیوں میں کافی یک رنگی ہوتی ہے یعنی لوگ ایک ہی قسم کی چیز آئے دن تلاش کرتے رہتے ہیں۔‘
تاہم انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ ’گرینی پورن‘ کہی جانے والی چیزیں کافی مقبول ہیں جس میں لوگ معمر خواتین جو اپنے چالیس، پچاس، یہاں تک کے ساٹھ سال کی عمر میں ہیں ان کے سیکس کے بارے میں جاننے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور برطانیہ میں یہ رجحان سب سے زیادہ ہے۔
انسانی نفسیات اور سماج پر مطالعہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ فحش مواد اور تشدد کے درمیان رشتہ تلاش کر پانا خاصا مشکل ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اس سے لوگوں کے برتاؤ تبدیلی تو نہیں ہو رہی ہے؟
یاد رہے کہ ہر چھ یا سات میں سے ایک شخص انٹرنیٹ پر فحش مواد تلاش کر رہا ہوتا ہے۔